Wednesday 19 October 2016

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت

ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اس حالت میں دیکھا کہ دوپہر کے وقت مسجد نبوی ﷺ کے صحن میں کچی اینٹ کا تکیہ سرکے نیچے رکھے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ آرام فرما رہے ہیں۔ (اب کثیرجلد 7ص 213)


خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو مصر کے بلوائی شہید کرنے کے درپے تھے اور تقریباََ ساڑھے سات سو بلوائیوں نے مدینہ منورہ پر قبضہ کرلیا۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم نے باغیوں کا سرکاٹنے کی اجازت چاہی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ مجھ سے یہ نہ ہوگا کہ حضور ﷺ کا خلیفہ ہوں اور خود ہی آپ ﷺ کی امت کاخون بہاؤں۔

ایک موقعہ پر حضورﷺ نے فرمایا تھا۔ اے عثمان ! اللہ تعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائیں گے (خلافت عطا کریں گے )۔ جب منافق اسکواتارنے کی کوشش کریں تو اس کو مت اتارنایہاں تک کہ مجھے آملو (شہید ہوجاؤ ) ۔ چنانچہ آخری وقت میں جب باغیوں اور منافقوں نے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور اقدس ﷺ نے عہدلیا تھا چنانچہ میں اس عہد پر قائم ہوں اور صبر کررہا ہوں۔ 35 ذیقعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے گھر کے محاصرہ کیا۔ دوران محاصرہ باغیوں نے چالیس روز تک آپ رضی اللہ عنہ کا کھانااور پانی بند کردیا اور 18ذوالحجہ کو چالیس روز سے بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ، خلیفہ سوم عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جمعہ المبارک کے روز، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے روز ہ کی حالت میں انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے 12 دن کم 12سال تک 44لاکھ مربع میل کے وسیع وعریض خطہ پر اسلامی سلطنت قائم کرنے اور نظام خلافت کو چلانے کے بعد جام شہادت نوش کیا۔

1 comment: